سونے چاندی کا سرد محل اردو 2022
Sonay Cāndī Kā Sard Maḥal
17٫28 $
اشتراکگذاری
Wishlist
عنوان اصلی:
Sonay Cāndī Kā Sard Maḥal
شابک:
9789690027979
ناشر:
Feroz Sons ltd
گروه سنی:
کودکان دبستانی - 8 تا 12 سال
صفحات:
112
وزن:
192 g
ابعاد:
15 x 23 x 1 cm
جلد کتاب:
شومیز
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو وطن عزیز کے امور کو چلانے کے لیے مخلف ادارے وجود میں آۓ اور ملک ایک ڈگر پر چلتا ہوا نشوونما پانے لگا۔ لٹے پٹے نوجوان اور بچے کھچے بزرگ پاکستان پہنچے اور نئے ملک میں محنت مزدوری میں جت گئے۔ اس وقت جناب مولوی فیروز الدین جو ایک عظیم المرتبت مصلح قوم شمار ہوتے تھے، انہوں نے پاکستان کے بچوں کو قائداعظم کے دو قومی نظریہ سے روشناس کرانے کی ٹھانی۔ اس مرد مجاہد نے اپنا سفر مشتر کہ ہندوستان سے شروع کیا اور پھر پاکستان میں فیروز سنز جیسے اشاعتی ادارے کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان دونوں ٹیلی ویژن اور کارٹون نہیں تھے تو بچوں اور بڑوں کے لیے اس ادارے نے ایسی خوب صورت اور سبق آموز کتا ہیں چاہیں کہ اگر آج ہم کہیں کہ پچاس کی د ہائی سے لے کر اسی کی دہائی تک تعلیم حاصل کرنے کا پیغام پاکستان کے ہر گھر میں فیروز سنز نے پہنچایا تو غلط نہ ہوگا۔
میں نے بھی اپنا بچپن فیروز سنز کے ناول اور تعلیم و تربیت کی کہانیاں پڑھتے ہوۓ گزارا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے فیروز سنز کی طرف سے لکھنے والے اساتذہ، مقبول جہانگیر ، جبار تو قیر، یونس حسرت ، زبیدہ سلطانہ وغیرہ کو پڑھ کر لکھنا شروع کیا۔ آج جب تنقید نگار مجھے کہتے ہیں کہ میں ان کی طرح لکھتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ سعید لخت صاحب مرحوم نے 1978ء میں تعلیم وتربیت میں میری ایک تحریر کو پڑھ کر میری والدہ جو ایک ہائی سکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں ، کو خط لکھ کر میری تعریف کی تھی ، جب میں پندرہ سال کا تھا۔ آج وہ زندہ ہوتے تو خوش ہوتے کہ میری کتاب فیروز سنز کی طرف سے چپ رہی ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے ایڈیٹر تھے۔ ان کی موجودگی میں کتاب میں غلطی کا احتمال نہیں ہوتا تھا۔ فیروز سنز کی طرف سے چھپنا میرا بچپن کا خواب تھا۔ بچوں کو چاہیے کہ بڑوں کو بھی یہ کہانیاں سنائیں کیوں کہ ہر بڑے کے اندر ایک بچہ چھپا ہوا ہوتا ہے ۔ ہم بس اسے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ احمد عدنان طارق ، فیصل آباد
more
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو وطن عزیز کے امور کو چلانے کے لیے مخلف ادارے وجود میں آۓ اور ملک ایک ڈگر پر چلتا ہوا نشوونما پانے لگا۔ لٹے پٹے نوجوان اور بچے کھچے بزرگ پاکستان پہنچے اور نئے ملک میں محنت مزدوری میں جت گئے۔ اس وقت جناب مولوی فیروز الدین جو ایک عظیم المرتبت مصلح قوم شمار ہوتے تھے، انہوں نے پاکستان کے بچوں کو قائداعظم کے دو قومی نظریہ سے روشناس کرانے کی ٹھانی۔ اس مرد مجاہد نے اپنا سفر مشتر کہ ہندوستان سے شروع کیا اور پھر پاکستان میں فیروز سنز جیسے اشاعتی ادارے کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان دونوں ٹیلی ویژن اور کارٹون نہیں تھے تو بچوں اور بڑوں کے لیے اس ادارے نے ایسی خوب صورت اور سبق آموز کتا ہیں چاہیں کہ اگر آج ہم کہیں کہ پچاس کی د ہائی سے لے کر اسی کی دہائی تک تعلیم حاصل کرنے کا پیغام پاکستان کے ہر گھر میں فیروز سنز نے پہنچایا تو غلط نہ ہوگا۔
میں نے بھی اپنا بچپن فیروز سنز کے ناول اور تعلیم و تربیت کی کہانیاں پڑھتے ہوۓ گزارا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے فیروز سنز کی طرف سے لکھنے والے اساتذہ، مقبول جہانگیر ، جبار تو قیر، یونس حسرت ، زبیدہ سلطانہ وغیرہ کو پڑھ کر لکھنا شروع کیا۔ آج جب تنقید نگار مجھے کہتے ہیں کہ میں ان کی طرح لکھتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ سعید لخت صاحب مرحوم نے 1978ء میں تعلیم وتربیت میں میری ایک تحریر کو پڑھ کر میری والدہ جو ایک ہائی سکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں ، کو خط لکھ کر میری تعریف کی تھی ، جب میں پندرہ سال کا تھا۔ آج وہ زندہ ہوتے تو خوش ہوتے کہ میری کتاب فیروز سنز کی طرف سے چپ رہی ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے ایڈیٹر تھے۔ ان کی موجودگی میں کتاب میں غلطی کا احتمال نہیں ہوتا تھا۔ فیروز سنز کی طرف سے چھپنا میرا بچپن کا خواب تھا۔ بچوں کو چاہیے کہ بڑوں کو بھی یہ کہانیاں سنائیں کیوں کہ ہر بڑے کے اندر ایک بچہ چھپا ہوا ہوتا ہے ۔ ہم بس اسے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ احمد عدنان طارق ، فیصل آباد
more